Saturday, May 1, 2010

کالم

"افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر"
عمیرروتاہواگھرآیا۔کپڑے پھٹے ہوئے تھے ۔ابونے حیران ہوکرپوچھا :
یہ کیاحال بنارکھاہے،کیاہواہے؟
عمیرنے بڑی معصومیت سے جواب دیا:
ابو! ہوں ہوں مجھے امریکہ نے ماراہے۔
باپ جھڑکتے ہوئے :
ابے اُلو!میں وزیرستان کا نہیں تیرا پوچھ رہا ہوں کہ کس نے مارا ہے ؟باپ نے غصے میں بپھرے ہوئے شیر کی طرح چنگاڑتے ہوئے کہا،بتاتا ہے یا تجھے ہاتھ دکھاؤں۔
عمیرنے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ جواب دیا:
ابو !اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے ؟ آپ نے خود ہی تو مجھے عادت ڈالی ہے ۔اکثر مجھے یہی سننے کو ملتا ہے ۔پاکستان میں پانی، بجلی کا بحران ہویاآٹے چینی کا رونا،بے روزگاری کا طوفان ہو یا دہشت گردی کا سامان،پولیس کی چھترول ہوملکی خزانے کا دیوالیہ ،اسمبلی میں توتو میں میں ہویا سرِراہ کوئی بغلگیر،پاکستان میں بھائی بھائی کو قتل کرے یا برڈ فلوکا مرض ہو۔آپ نے ہر مقام پر ہرمرتبہ اسے امریکہ یا بیرونی ہاتھ کا نام دیا ہے ۔میں نے سوچا جہاں اتنے بڑے بڑے ہمارے اندرونی مسائل کی وجہ امریکہ و دیگر بیرونی طاقتیں ہوسکتی ہیں تومیں نے سمجھاکہ سبطین سے میری خاطر مدارت بھی امریکہ ہی کی سازش ہے ۔
محترم قارئین !قصور عمیر کا نہیں ۔جب انسان اپنی نالائقی ،کم عقلی چھپانے کے لیے موردِ الزام دوسروں کوٹھہراتا ہے تو پھر اصلاح نہیں ہوتی بلکہ انسان خوش فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ
’’میں تے کُج وی نہی کیتاساراآپے ای ہوگیا‘‘
والی بات ہوتی ہے ۔ میں بحیثیت ایک انسان ،ایک مسلمان اور ایک پاکستانی کے تصویر کے مخفی رُخ کو آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں۔ذراغور کریں امریکہ یا دیگر بیرونی طاقتیں وہاں بھی انسان آباد ہیں۔انسانوں کے وہی روپ رنگ ہیں جو ہمارے ہیں۔ بتقضائے بشریت جو انکی طلب وہ ہماری بھی طلب ہے، بطور قوم جو ان کا ملک و ملت سے رشتہ ہے وہ ہمارا بھی ہے ۔جب مماثلت کی قدریں اتنی مشترک ہیں تو پھر وہ عالمی اُفق پردرخشندہ ستارہ اور ہم ظلمت کدوں کے راہی ؟۔
کبھی غورکیاکبھی خیال آیا کہ ماجرا کیا ہے؟عرض کرتا چلوں کے امریکہ یا دیگر طاغوتی قوتوں کی مداح سرائی نہیں کر رہا نہ میرا ان سے کوئی لینا دینا ہے لیکن یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی فہم وفراست اور گزشتہ سے پیوستہ تجربات کی روشنی میں ہونے والے نقصانات کے محرکات سے آپ کو شناسا کرسکوں۔میں مسلمان ہوں،پاکستانی ہونے ان دونوں رشتوں کی بدولت میں وہی سوچتاہوں جو ان دونوں رشتوں کا حق ادا کرسکے ۔خیر!اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے ان عظیم ممالک میں سے ایک ہے جسے ربّ نے اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا۔حدود اربعہ کے اعتبار سے خوشکی ،نہر ، دریا ،سمندر،صحرا،نخلستان، پہاڑ، میدان ،کھیت کھلیان،سال میں قدرت کے عطارکرہ چار موسم معدنیات کی دولت سے مالا مال ،ہونے والا پاکستان زوال پزیر کیوں ہورہا ہے ؟
دراصل ہم اپنے مفادات کی جنگ لڑتے رہے ۔اپنی ذات سے باہر نکل کر تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔میں ڈاکٹر ہوں ،میں انجینئیرہوں،میں پائلٹ ہوں،میں امام مسجد ہوں،میں جاگیردارہوں،میں استادہوں،میں صاحبِ اقتدار ہوں ،میں حزب اختلاف ہوں۔حضرت مان لیا آپ ہیں۔قبلہ آپ جس مرضی روپ میں ہوں دو وصف آپ کی ذات کے لیے سائے کی طرح آپ کے تعقب میں رہتے ہیں کبھی نظر کی اس طرف؟ ۔جی !آپ مسلمان بھی ہیں اورپاکستانی بھی ہیں۔
آئی سمجھ؟
جب اس نہج پر آکر سوچیں گے تو اس کا ایک اپنا رنگ ہوگا ۔کیونکہ قوموں کی تقدیریں افرادکے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملّت کے مقدر کاستارا
ملک و ملّت کی ترقی اکائی ،منشورنظریہ اور نڈروعادل قیادت میں پنہاں ہے ۔میں صرف ایک شعبہ تعلیم ہی کی مثال پیش کرتا ہوں۔ہم آج تک اپنے نظام تعلیم کو درست نہ کرسکے ۔ہماری درسگاہیں ہمیں ڈگری ہولڈر فرد تو دے سکیں لیکن ایک تعلیم یافتہ باشعور،ملک و ملّت سے مخلص ٹیلنٹ نہ دے سکیں۔استاد روحانی باپ ہے صرف یہی اپنے ذمّہ داری نوکری نہیں فرض سمجھ ملک و ملّت سے محبت کا حق سمجھ کر ادا کرنا شروع کردے تو با اخلاق ،با وفا ،دیانت دار ،لوگ معاشرے میں نئی روح پھونک دیں گے ۔میں اپنی مثال پیش کرتا ہوں ۔ایم ۔اے صحافت کرنے کے بعدسو چ رہا تھا ڈگری مل گئی میڈیا میں خوب نام کمائیں گئے ،نوٹ کمائیں گے۔مجھے ابلاغیاتی صحافت،آئی ٹی ،صحافتی زبان ،صحافتی قانون،فن تحقیق سب ہی کچھ پڑھایا گیا لیکن کہیں میری اخلاقی تربیت، ملک سے محبت ،انسانوں کے لیے نرم گوشہ رکھنا شاید نہیں۔۔۔۔جس کی وجہ سے ذاتیات سر چڑھ کر بولنے لگیں۔تعلیم نام ہے احترام آدمیت کا ،اخلاقی تربیت کا ،یکجہتی اکائی واتحادکا۔محترم قارئین !یہ صرف آٖپ کو ایک گوشہ کی سیر کروائی ہے ۔اگرخاک روب سے وزیراعظم و صدر تک سب اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔مانا کہ اس وقت ہم مشکل میں ہیں اندرونی بیرونی سازشتوں کا شکار ہیں ۔لیکن اندھیرے کو کوسنے سے روشنی تو نہیں ہوگی آگے بڑھ کر قندیل روشن کردیں سارا گھر روشن ہوجائے گا۔
شب کی تاریکی مجھ کو کھاجائے تو کیا ہوا
کوئی تو ہوگا جو صبح درخشاں دیکھے گا۔
مستقبل ہمارا ہے ۔ہم خوشحال ہونگے ۔ہم طاقتور ہونگے۔ہمارا وجود دوسروں کے لیے ضرب المثل بن جائے گا۔مؤرخین کے قلم کی سیاہی ہمارے متعلق قابل رشک نقوش رقم کرے گی۔تو پھر عزم بالجزم کرلیں کہ ماضی کی غلطیاں حال کے لیے درس اور مستقبل کی کامیابیوں کا زینہ ثابت ہونگیں۔
پاکستان زندہ آباد اسلام پائندہ آباد
راقم .ڈاکٹر ظہوراحمد دانش(پی۔ آر۔ او۔کشمیرویلفئیر ٹرسٹ انٹرنیشنل)
اسٹار گیٹ شاہر ہ فیصل کراچی
فون نمبر 0346-2914283

1 comments:

DR ZAHOOR AHMED DANISH said...

its way to devote ur life for people

Post a Comment